عملی تربیت

5     عملی تربیت
نظام اور نصاب،طریقہ تعلیم اور معاونت ان چاروں امور سے مقصود و مطلوب یہ ہے کہ مکتب میں پڑھنے والے ہر ہر بچے کی عملی تربیت ہوجائے۔
عملی تربیت میں چار امور کی تفصیل ذکر کی جائے گی:
1    انسانی طبیعت۔
2    نبوی طریقہ تربیت ۔
3    عملی تربیت کرنے کے طریقے۔
4    اساتذہ کرام طلبا کو ان امور کی عملی مشق کرائیں۔

1    انسانی طبیعت
’’ میں سنتا ہوں بھول جا تا ہو ں،
میں دیکھتا ہوں یاد رہتا ہے ،
میں کرتا ہوں سمجھ جاتا ہوں۔‘‘
m    اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ہر بچے کی صرف زبانی تربیت پر اکتفا نہ کیا جائے بل کہ ساتھ ساتھ اس کی عملی تربیت پر بھی توجہ مرکوز رکھی جائے۔
m    اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف زبانی طور پر بتانے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ بچوں کو عملی طور پر پڑھایا اور سمجھایا جائے،عملی طور پر پڑھانے سےسمجھ میں بھی آجاتا ہے اور یاد بھی رہتا ہے۔ عملی طور پر سمجھانا یہ فطری طریقہ تربیت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہی طریقہ تربیت تھا۔

2    نبوی طریقہ تربیت
(۱ء۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمان کے بادشاہ جُلنْدَی کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔
جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بادشا ہ کو اسلام کی دعوت دی تو اس نےکہا:
’’ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسے نبی کے بارے میں خبر دی ہے جو اُمِّی ہیں،وہ جس بھلی بات کا بھی حکم دیتے ہیں پہلے خود اس پر عمل کرتے ہیں، جس برے کام سے منع کرتے ہیں خود بھی اس سے باز رہتے ہیں جب آپ دشمن پر غالب ہوتے ہیں تو اکڑتے نہیں ہیں جب مغلوب ہوتے ہیں تو زبان سے برا بھلا نہیں کہتے ہیں اور ان کے ساتھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے،عہد اور وعدے کو پورا کرتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ نبی ہیں۔‘‘            (الاصابہ للحافظ فی ترجمۃ الجلندی ملک عمان:۱/ ۵۳۸]
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن تھے، اس لیےکہ آپ کی پوری زندگی قرآن کریم کے مطابق تھی،آپ قرآن کریم کے تمام احکامات پر عمل کرنے والے ، جس چیز سے روکا گیا ہے اس سے رکنے والے ، قرآن کریم کی تمام نصیحتوں سے نصیحت حاصل کرنے والے ، اور جس سے ڈرایا گیا اس سے ڈرنے والے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس شریعت کے مطابق تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی جس صراط مستقیم پر چلنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دیتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس پر چلنے والے تھے۔
اسی خوبی کی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف فرمائی ہے اور آپ کو’’عبد اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا جو سب سے اونچی نسبت ہے۔
(۲ء۲)  مسجد کی صفائی کا اہتمام :
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مسجد میں تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میںقبلے کی جانب بلغم دیکھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی لکڑی سے کھرچا،پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا:
”تم میں سے کون چاہتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض کرے؟“
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ سن کر ہم ڈرے،نگاہیں نیچے کرلیں اور سر جھکالیے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی ارشاد فرمایا:
”تم میں سے کون چاہتاہے کہ اللہ تعالی اس سے اعراض کرے؟“
ہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!”کوئی بھی نہیں چاہتا۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑاہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اس لیے ہر گز کوئی اپنے چہرے کے سامنے کی طرف نہ تھوکے اور نہ ہی دائیں طرف تھوکے ۔“
پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”خوشبو لاؤ! ایک نوجوان دوڑتا ہوا گھر گیا اور جلدی سے اپنے ہاتھ میں خوشبو لے کر آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وہ خوش بو لی اور لکڑی کے سرے پر لگائی پھر اس کو بلغم والی جگہ پر ملا ۔“
(صحیح مسلم، الزھد ، باب حدیث جابرا لطویل، الرقم: ۷۵۱۴)
(۳ء۲)  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو :
حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا سے نقل کرتے ہیںکہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا:”اے اللہ کے رسول!وضو کا طریقہ بتادیجیے؟“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں وضو کا پانی منگوایا،پھر اپنی ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھویا ،پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے دونوںہاتھ تین مرتبہ دھوئے،پھر اپنے سر کا مسح کیا،پھر اپنی شہادت کی انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالیں،اپنے انگوٹھوں سے کانوں کے ظاہر کا مسح کیااور شہادت کی انگلی سے کان کے اندر کا مسح کیا،پھر اپنے پاؤں کوتین تین مرتبہ دھویا، یہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’یہ وضو کا طریقہ ہے۔‘‘         (سنن ابی دائود، الطہارۃ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، الرقم: ۱۳۵)
(۴ء۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وضو:
حضرت ابو حَیَّۃ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہو ئے دیکھا کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا ،پھر تین مرتبہ کلی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرہ اور ہاتھوں کو تین تین مرتبہ دھویا اور اپنے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا پھر اپنے پا ؤں ٹخنوں سمیت دھوئے پھر کھڑے ہوکر وضو کا بچاہوا پانی پیا اور ارشاد فرمایا:
’’اَحْبَبْتُ أَنْ اُرِیَکُمْ کَیْفَ کَانَ طُھُوْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘
(جامع الترمذی ،الطہارۃ۔باب فی وضوء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الرقم:۴۸)
ترجمہ: ’’میں نے چاہا کہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا طریقہ دکھادوں۔ ‘‘
(۵ء۲) نماز کے اوقات کی تعلیم  :
ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں دریافت کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا:’’ہمارے ساتھ دو دن نماز پڑھو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دن پانچوں نمازیں اول وقت میں پڑھائیں اور دوسرے دن پانچوں نمازیں آخر وقت میں پڑھائیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”وہ سائل کہاں ہے؟“
اس آدمی نے عرض کیا:  ”جی اللہ کے رسول!“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا:
’’پانچوں نمازوں کے اوقات اس کے درمیان ہیں جو تم نے ان دو دنوں میں دیکھا۔‘‘
(صحیح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوات الخمس، الرقم: ۱۳۹۱)
(۶ء۲) منبر پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا:
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائی جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا:
’’یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَاصَنَعْتُ ھٰذَا لِتَاْ تَمُّوْا بِیْ وَ لِتَعَلَّمُوْا صَلَاتِیْ۔‘‘
(صحیح مسلم،المساجد،باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلاۃ، الرقم: ۱۲۱۶)
ترجمہ:’’اے لوگو!میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ تم میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔‘‘
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بتادیا کہ منبر پر نماز پڑھنا یہ نماز سکھانے کے لیے ہے تاکہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کے طریقے کو دیکھ لیں،اس لیے کہ زمین پر نماز پڑھنے کی صورت میں صرف قریب میں نماز پڑھنے والے صحابہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ دیکھ سکتے تھے۔
(۷ء۲)   حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی حکمت عملی :
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب مسلمان اور مشرکین میں صلح نامہ مکمل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا:
’’احرام کھول دیں اور قربانی کے جانور ذبح کردیں۔‘‘
بغیر عمرہ کیے واپس ہونا اور احرام کھول دینا اس پر صحابہ کو بہت دکھ ہوا جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں کچھ تاخیر ہوئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کا تذکرہ فرمایا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے بال منڈوالیں اور قربانی کا جانور ذبح کرلیںصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایسا ہی کریں گے۔چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے یہ منظر دیکھا تو سب کے سب کھڑے ہو گئے،قربانی کے جانور ذبح کرنے لگے اور ایک دوسرے کے سر کے بال مونڈنے لگے۔      (الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی: ۱۵۴۱)
(۸ء۲)   چھوٹے بچوں کو آداب سکھانا:
حضرت عمربن ابو سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر کفالت چھوٹا سا بچہ تھا ،کھانے کے برتن میں میرا ہاتھ اِدھرُ ادھر چلا جایا کرتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
’’یَا غُلَامُ !سَمِّ اللّٰہَ وَ کُلْ بِیَمِیْنِكَ وَ کُلْ مِمَّا یَلِیْكَ۔‘‘
(صحیح البخاری ،الاطعمۃ باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین۵۳۷۶)
تر جمہ:’’اے لڑکے! بسم اللہ پڑھ کر شروع کرو،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔‘‘
(۹ء۲)  نئے مسلمان ہونے والے صحابی کی تربیت:
حضرت کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ (ان کے ماں شریک بھائی) صفوان بن امیہ نے ان کو دودھ ،اورہرنی کاایک بچہ اورکچھ کھیرےلےکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی مکہ کے بالائی حصے میں تھے۔
حضرت کلدہ کہتے ہیں:یہ چیزیں لے کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیااور نہ میںنے پہلے سلام کیا اورنہ حاضری کی اجازت چاہی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اِرْجِـعْ فَقُلْ:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَ اَدْخُلُ۔‘‘
(جامع الترمذی،الاستیذان،باب ماجاء فی التسلیم قبل الاستیذان ،الرقم:۰۱۷۲)
ترجمہ: تم واپس جائو اور(قاعدہ کے مطابق) اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کیا میں اندر آجائوں؟‘‘ کہہ کر اجازت مانگو۔
مطلب یہ ہے کہ جب کسی سے ملنے کے لیے جانا ہوتوسلام کرکے اورپہلے اجازت لے کر جانا چاہیے،حضرت کلدہ رضی اللہ عنہ اس ادب سے واقف نہیں تھے،اسی لیے یوں ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
باہر واپس جائو اورکہو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَ اَدْخُلُ  (السلام علیکم! کیا میں اندر آسکتاہوں) اورجب اجازت ملے توآؤچناںچہ انہوںنے ایسا ہی کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام اوراجازت لینے کاطریقہ صرف زبانی بتادینے کے بجائے اس سے عمل بھی کرادیا۔ظاہر ہے جوسبق اس طرح دیاجائے اس کو آدمی کبھی نہیں بھول سکتا۔
(معارف الحدیث کتاب المعاملات والمعاشرت:۶/۳۴۷]

(۱۰ء۲) صحیح طریقہ کار بتانے کا طریقہ:
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لڑکے کے پاس سے گزرے جو بکری کی کھال اتار رہاتھا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
’’پیچھے ہو جاؤ! میں تمہیں دکھاتا ہوں ۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھال اتارنے کے لیے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان ڈالایہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بغل تک چھپ گئے اور ارشاد فرمایا:
’’اے لڑکے!اس طرح کھال اتارو!‘‘
(ابن ماجہ،الذبائح،باب السلخ، الرقم: ۳۱۷۹)
m    ہر بچے کی عملی تربیت ہو جائے اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کی ہر مکتب میں ترتیب بنائی جائے:مثلاً استاذ وضو، نماز خود عملی طور پر کرکے دکھائیں۔
3    عملی تربیت کرنے کے طریقے
1    استاذ بچے کے سامنے خود بھی عملی نمونہ پیش کریں:وضو کے سبق میں مسواک کا ذکر آئے تو استاذ محترم مسواک کر کے دکھائیں، اسی طرح طلبا سلام کے عادی بن جائیں اس کے لیے استاذ محترم خود سلام میں پہل کریں اور پورا سلام کریں اس لیے کہ بچے نقال ہوتے ہیں جیسا استاذ کو کرتا دیکھتے ہیں ویسا خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2    جو کچھ پڑھایا ہے اس کی عملی مشق کروائیں جیسے: وضو، اذان اور نماز وغیرہ عملی طور پر طلبا سے پڑھوائیں۔
3     جو پڑھا ہے اس پر عمل کرنے کی ترغیب اور تشکیل کی جائے ۔
4     آئندہ کل اس کی کارگزاری سنی جائے۔
5     عمل کرنے والے طلبا کی مَا شَآءَ اللّٰہُ ، جَزَاكَ اللّٰہُ خَیْرًا  کہہ کر حوصلہ افزائی کی جائے اور جو طلبا عمل نہیں کر سکے ان کو دوبارہ ترغیب دی جائے۔
6     ہر طالب علم کا نام لے کر دعا مانگی جائے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سینے سے لگایا اور یوں فرمایا:
’’اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ۔‘‘
ترجمہ: ’’ اے اللہ ! تو اس کو قرآن کا علم عطا فرما۔‘‘
(صحیح البخاری، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، اللّٰھم علمہ الکتاب، الرقم: ۷۵)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنَا اِبْنُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَقَدْ قَرَاْتُ  الْمُحْکَمَ۔ ‘‘
(صحیح البخاری، فضائل القرآن، باب تعلیم الصبیان القرآن، الرقم: ۵۰۳۵)
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی میری عمر اس وقت دس سال تھی اور میں ’’محکم سورتیں‘‘ (یعنی سورۃ الحجرات سے سورۃ الناس) تک پڑھ چکا تھا۔‘‘
اور اس زمانے میں پڑھنا ، معانی اور مطلب سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہوتاتھا۔

4   اساتذہ کرام طلبا کو ان امور کی عملی مشق کرائیں
(۱ء۴)تربیتی نصاب حصہ اوّل کے عملی مشق کے امور :
1        وضوکاطریقہ: خاص طورسے وضو کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ پڑھنا اورمسواک کرنا۔
2       اذان،اقامت۔
3       نماز۔
4       اِنْ شَآءَ اللّٰہ کہیں جس کام کے کرنے کاارادہ کریں۔
5       وضوکے شروع،درمیان اورآخر کی دعا۔
6       ہرکام شروع کرنے سے پہلے ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ پڑھنے کی مشق کروائیں۔
7       سلام ۔
8       ’’اَلْحَمْدُلِلّٰہ‘‘کہنے کی عادت ڈلوائیں۔
9       پینے کے آداب،خاص طورسے سیدھے ہاتھ سے پینا،بیٹھ کر پینا، شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ اورپینے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ پڑھنا۔
–      کھانے کے آداب،خاص طورسے سیدھے ہاتھ سے کھانا،برتن صاف کرنا،کھانے سے پہلے اورکھانے کے بعدکی دعاپڑھنا۔
(۲ء۴)تربیتی نصاب حصہ دوم کے عملی مشق کے امور :
1       اذان کاجواب۔
2     اقامت کاجواب۔
3      نماز۔
4      نمازجنازہ۔
5     بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے اورنکلنے کے بعد کی دعا اور آداب کی مشق۔
6     صبح وشام کی تین مسنون دعائوںکی مشق ۔
7     تلاوت کے آداب کی مشق خاص طورسے باوضو ہو،تجویدکے ساتھ ٹھہرٹھہر کرپڑھنا اورآیت سجدہ پرسجدہ تلاوت کرنا۔
8     دعا:ہاتھ اٹھانے کاطریقہ،دعاکے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا ،دعا کے شروع اور آخر میں درود شریف، دعا کے ختم پر آمین کہنا، دعاکے بعدچہرے پرہاتھ پھیرنا۔
9     چھینک: چھینک آنے پراَلْحَمْدُلِلّٰہِ  کہنااورمنہ پرہاتھ یاکپڑا رکھنا۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِکے جواب میں ’’یَرْحَمُكَ اللّٰہُ‘‘ اوراس کے جواب میں ’’یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ‘‘ کہنا۔
–       جمائی کے وقت منہ پرہاتھ رکھنا اورآواز نہ نکالنا۔
(۳ء۴)تربیتی نصاب حصہ سوم کے عملی مشق کے امور:
1        تیمم ۔
2       جماعت خاص طورسے کھڑے ہونے کاطریقہ اورصف بندی۔
3       عیدکی نماز۔
4      کلاس کے ختم پرمجلس سے اٹھنے کی دعاپڑھنا۔
5     سواری پرسوار ہونے کی دعاپڑھنا۔
6     سورج نکلنے کی دعا۔
7     مجلس کے آداب۔
8     مصافحہ کا طریقہ۔
9     لباس ۔
–       راستے کے آداب خاص طورسے سیدھے ہاتھ پرچلنا،نگاہیںنیچی رکھنا،سلام کرنے کی مشق۔
(۴ء۴)تربیتی نصاب حصہ چہارم کے عملی مشق کے امور :
1        مسافر کی نماز۔
2       بیمارکی نماز۔
3       سجدہ سہو۔
4      سجدہ تلاوت ۔
5     خوشی کے موقع کی دعا۔
6     ناگواری کے موقع کی دعا۔
7     بیمارکی عیادت کی دعا،کسی طالب علم کوبیمار بنادیں دوسرا طالب علم تیمارداری کرے اور دعا پڑھے۔
8      تواضع خاص طورسے چلنے میں عاجزی ہو ،نرمی سے بات کرنا،سلام میں پہل کرنا۔
9      رشتہ داروں کے حقوق خاص طورسے ملاقات کے لیے جانا،ان کی غمی خوشی میںشریک ہونا، تعلقات جوڑنا۔
اس کی صورت یہ ہے کہ ایک طالب علم کو دوسرے کارشتہ داربنادیں پھروہ اس کے ساتھ یہ معاملہ کرکے دکھائے ۔
–      حسد کے علاج کی مشق کروانا۔
تَـــــــــمَّتْ          بِـالْــخَیْــــــــرِ