1.2.1_حضرت معاویہ بن حکم سُلَمیؓ فرماتے ہیں:

ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نما ز پڑھ رہا تھا ، ایک آدمی کو چھینک آئی، میں نے ’’یَرْحَمُكَ اللّٰہ ‘‘ کہا۔ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کردیا۔
میں نے کہا:
تمہیں کیا ہوا مجھے کڑوی کڑوی نگاہوں سے گھورتے ہو۔ لوگ مجھے چپ کرانے لگے ، مجھے سمجھ میں تو کچھ آیا نہیں لیکن میں خاموش ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہونے کے بعدمجھے بلایا ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’فَبِاَبِیْ وَ اُمِّیْ مَارَاَیْتُ قَبْلَہٗ وَلَا بَعْدَہٗ اَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ فَوَاللّٰہِ مَاکَھَرَنِیْ وَلَا ضَرَبَنِیْ وَلَاشَتَمَنِیْ قَالَ: اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَایَصْلَحُ فِیْھَا شَیْءٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، اِنَّمَا ھُوَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَاءَۃ ُ  الۡقُرْاٰنِ۔‘‘
ترجمہ:’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں نے آپ سے بہتر’’ معلم‘‘ نہ آپ سے پہلے کسی کو دیکھا نہ آپ کے بعد۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ ہی برا بھلا کہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’نماز میں لوگوں سے بات کرنا درست نہیں۔ نماز میں تو تسبیح، تکبیر اور قرآن کریم کی قرأت ہی ہے۔‘‘         (صحیح مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلوٰۃ۔ الرقم:۱۱۹۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’اُمِّی‘‘ ہونے کے باوجود سب سے بہترین معلم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام تر کمالات وصفات سے نوازا تھا جو ایک معلم میں ہونی چاہییں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے چند طریقے ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ معلمین اور اساتذہ کرام کے سامنے پڑھانے اور سکھانے کا ایک رخ آجائے اور تعلیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کو اختیار کرنے سے پڑھائی معیاری اور بہترہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم ذکر کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم سے متعلق منقول دعا ئیں ذکر کردی جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دعاؤں کا بہت اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ ہر معلم کو چاہیے کہ ان دعاؤں کاخوب اہتمام کرے۔